درداں کولوں لو شہادت – قسط چہارم


یہ مصرعہ جو عنوان بنا ہے یہ منو بھائی کی ایک نظم سے مستعار لیا ہے اور آگے بڑھنے سے پہلے یہ پورا بند سن لیں تو بات زیادہ واضح ہوتی چلی جائے گی۔


درداں کولوں لو شھادت
زخماں توں تصدیق کرا لو
ساڈے ایس مقدمے اندر۔
سانوں وی تے گواہ بنا لو۔


پچھلے مضامین میں سے کچھ جو سوشل میڈیا پہ شائع ہوئے تو بہت اچھے اور وسیع رد عمل کے ساتھ ساتھ کوئی دو سو کے قریب گالیاں دینے والے عاشقان دین کی گالیاں بھی سننے اور پڑھنے کو ملیں۔ اور حمزہ عباسی کے شور شرابے سے لے کر ان بد زبان عشاق تک ایک قدر مشترک یہ دیکھنے میں آئی کہ


* بات نہیں کرنی۔
* سوال بھی جو اٹھائے وہ بھی کافر
* مرتد کی ایک سزا ۔سر تن سے جدا


اور ہم نہیں چھوڑیں گے۔جیسے سلمان تاثیر کو نہیں چھوڑا اور یہ کر دیں گے اور وہ اکھاڑ لیں گے۔
اور اس میں پاکستان کے طول و عرض سے اسی قبیل کا مکالمہ سامنے آیا ہے۔ ان سر فروشان کو سامنے رکھ کر کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔ ان سرفروشوں سے، آپ قارئین سے اور ارباب حل و عقد سے۔


سب سے پہلے تو یہ کہ حمزہ نے بات کر کے احمدیہ عقائد میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ احمدیت کے بارے میں ایکسپوز کیا ہے بلکہ صرف یہ بات ایکسپوز کی ہے بلکہ اس پر ہائی لائیٹر پھیر دیا ہے کہ آپ جو مکالمہ مکالمہ کرتے رہتے ہیں یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ آپ کے عبدالعزیزوں، سمیع الحقوں، اور مفتی قویوں نے شیرانیوں اور اشرفیوں کے ساتھ مل کر آپ کی موجودہ نسلوں کو سرفروشی اور غیرت کی چوسنی دے کر شاہ دولے کے چوہے بنا دیا ہے اور اب آپ کے عالی مرتبت رائے باز اور آراء ساز پوری تن دہی کے ساتھ لوہے کے ٹوپ ان چھوٹے سروں پر چڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس میں کسی مجیب الرحمن شامی، حامد میر، ابصار عالم یا انصار عباسی کی قید نہیں بلکہ سب جہالت کے سافٹ امیج اور ذہنی بد دیانتی کے سہولت کار ہیں۔ ایک کونے میں وجاہت مسعود، عدنان رحمت، فہیم عامر اور رضا رومی بھی ہیں جو آنکھیں پھاڑے یہ تکتے ہیں اور زیر لب یہ مصرعہ دہراتے ادھر سے ادھر گذر جاتے ہیں۔۔۔کہ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں لگ گئی کیوں پرواز میں چپ۔


اس سے اوپر دیکھیں تو بے حسوں اور مفاد پرستوں کا ایک پورا جتھہ ہے جو پورے ملک کو گدھا بنائے اور سمجھے خود کو سب کا لیڈر سمجھے ہوئے ہے، بس فرق یہ ہے کہ نہ تو لوگ گدھے ہیں اور نہ ہی وہ لیڈر ہیں۔ لوگ کچھ اور ہیں۔ شائید بے ہوش یا مدہوش۔۔۔۔۔ اور یہ لیڈر نہیں ہیں ۔۔۔شائید کفن چور ہیں۔


بڑے سے پانی کے ٹب میں مینڈک ہیں اور نیچے آگ جل رہی ہے اور ہر روز ٹمپریچر بڑھ رہا ہے اور ان کو محسوس نہیں ہو رہا!
ایسے میں کبھی کبھی انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، شفافیت، اور اکیسویں صدی یا احمدیوں کے شھری حقوق کی سوڈیم کی ٹکڑیاں کوئی ماروی سرمد ، حمزہ عباسی یا جبران ناصر آکے پھینکتا ہے۔ چٹاخ پٹاخ ہوتی ہے لونڈے تالیاں پیٹتے ہیں اور دھواں چھٹتا ہے تو کوئی پیمرا حکم دیتا ہے اور کوئی چوہدری نثار پریس کانفرنس کر جاتا ہے۔ چور کی ماں کو کوئی نہیں پوچھتا۔اور بات کرنے پہ پابندی عائید کر دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بس گالی اور گولی والے پروان چڑھ رہے ہیں۔ اور آخر پر جنرل صاحب کی تصویر دکھا دی جاتی ہے۔
یعنی بلا استثناء مولوی جھوٹ بولے چلا جائے۔۔۔سپیکروں اور ٹی وی پہ بیٹھ کے نفرت کی یکطرفہ کاروائی کرتا رہے۔۔۔۔۔
کالم نگار ایک کے بعد دوسرا اوریا مقبول جان کی سطح پر اترتا جائے۔۔


ٹی وی اینکرز بغیر علم اور تحقیق کے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں اور احمدیوں کی ترجمانی یا خود کریں یا جماعت اسلامی والوں سے کروائیں اور آئینی فیصلے کا ڈھول بجا بجا کر بندے مرواتے رہیں۔۔۔۔کوئی بات نہیں۔
اور میڈیا بحیثیت مجموعی فریق بن چکا ہو۔
وزیر اعظم الفاظ واپس لیں احمدیوں سے تعزیت کے اور عدلیہ فیصلے محفوظ کر لے۔
فضاء یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی؟


عالی جاہ۔۔۔ایک گذارش ہے کہ جب ایک پورا طبقہ یہ عقیدہ گھڑ لے کہ دلیل مانگنا بھی کفر، سوال اٹھانا بھی کفر اور ان سے بات کرنا بھی کفر اور جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر!!ایک ہی سزا ۔ سر تن سے جدا۔۔۔!
تو اس فضاء میں سچے جھوٹے کا سوال ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ ایسے وقت میں جان مال عزت کے تحفظ کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور آگے بڑھ کر خم ٹھونک کر کرنا پڑتا ہے۔ اسی کو حکومت اور ریاست کہتے ہیں۔ اسی کو رٹ آف دی سٹیٹ کہتے ہیں۔
وہ کہاں ہے۔ بتائیں تو سہی۔ دکھائیں تو کہیں۔!
لڑکیاں زندہ جلا دو۔۔۔معاشرتی غیرت


ماروی سرمد کو ریپ کرنے کی دھمکیاں دو۔۔۔۔۔دلائل کی غیرت
احمدیوں کو مار دو اور مر چکے ہوں تو قبروں کے کتبے اکھاڑ دو۔۔۔دینی غیرت۔
ونی کر دو، کتوں کے آگے ڈال دو یا ننگا نچوا دو۔۔۔۔۔یہ جرگے اور قبیلے کی غیرت۔
اتنی ساری غیرتیں تو صرف اس صورت میں پنپ اور پل سکتی ہیں جب حکومت بے غیرت اور ریاست مفلوج ہو چکی ہو۔
اللہ کے بندو اب یہ جو جڑانوالہ میں قبریں اکھیڑی ہیں اس کی شکائیت لے کے کل ورثاء جی ایچ کیو کے باہر جا کے بیٹھیں کہ جنرل راحیل کو شکائیت کرنی ہے۔۔۔۔۔یا شکریہ کہنا ہے؟
کہاں ہیں محکمہ داخلہ اور پولیس کے حکام۔؟
ورنہ یہ نوشتہ دیوار کیوں نہیں نظر آ رہا کہ یہاں اس ملک میں پھر کون رہے گا؟


نہ شیعہ نہ آغا خانی نہ احمدی نہ غامدی۔۔ ۔۔۔۔سنجیاں ہوون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔
اور ہمارے حالات کے مطابق۔۔۔۔وچ “اوریا” یار پھرے۔
یہ حالت وہی ہے کہ جب مالا کنڈ سے شریعت نیچے اتری اور ویگنوں پہ بیٹھ کے ویسٹریج والی سڑک پہ چڑھی تو زرداری کی مفاہمت پرستی گئی کھڈے میں اور سوات آپریشن شروع ہو گیا۔
پھر پشاور سکول نے بچے مروائے اسی ڈائن سے تو دوسرا دور چلا۔


کراچی اور بلوچستان اس لئے سسک اور رس رہے ہیں کہ آپ کی پولیٹیکل ول اور فیصلہ سازی کو کتے کھا گئے ہیں اور جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جا رہے ہیں اور برے کو برا کہتے ہوئے آپ کا پیشاب خطاء ہو جاتا ہے۔
کوئی ہے جو ان سر فروشوں سے پوچھے کہ یورپ اور امریکہ میں تم لوگوں کا رمضان ، احترام رمضان آرڈیننس کے بغیر کیسے گذر جاتا ہے؟ اور وہاں لڑکیوں کے ٹخنوں پہ سوٹیاں کیوں نہیں مارتے اور سب سے بڑا سوال ؟؟


بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ کی زبان اور نشست و برخاست تو تم لوگوں کی گالیوں سے کوئی لگا ہی نہیں کھاتی تو تم نفاذ اسلام کے یہ اسلوب و آداب کہاں سے سیکھ کے آئے ہو اور ہمیں ان کج خلقیوں اور گندہ دہانیوں کے ساتھ کہاں لے جا رہے ہو؟
وزارت داخلہ اور انتظامیہ ان بد کلاموں اور بد کرداروں کے سامنے منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھی ہے اور فوج کی کچھ اپنی مصروفیات اور ترجیحات ہیں۔ تو ہمیں کن کے سہارے چھوڑا ہوا ہے؟


پھر تو اوریا مقبول اور انصار عباسی یا ابصار عالم ہی بچتے ہیں اور یہ تو وہ عطار کے لونڈے ہیں کہ بیمار ہوئے جن کے سبب!
منو بھائی کی ہی مشہور زمانہ ایک اور نظم کا ایک اور بند سنیں۔پھر آگے چلتے ہیں۔ کہ
لوکی گھراں تے مورچے لا کے کرن حفاظت فوجاں دی
گردیاں اتے بنھ سرہانے ملہم لواندے سوجاں دی۔
تے سینسر لا کے کرن نمائش اپنے سارے کوجھاں دی۔
پر اجے قیامت نہیں آئی ۔پر اجے قیامت نہیں آئی۔


تو جناب اس کے بعد کہ جب فوج اپنے مینڈیٹ کے آس پاس ہو اور وفاقی حکومت لندن سے آپریٹ ہو رہی ہو اور کے پی کے اکوڑہ خٹک پر انویسٹمنٹ کئے بیٹھی ہو اور عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان پنڈولم بنی ہو تو آپ بتائیں کے زندے کہاں جائیں اور مردےاب اور آگے کدھر جائیں۔؟
اور کل میں نے جرمنی کے بینک وزٹ کئے کہیں کوئی سیکورٹی گارڈ نہیں۔


آپ کے بینک سکول پولیو ٹیمیں پولنگ سٹیشن دکانیں گھر اور پارک تک تو پرائیوٹ سیکورٹی کے پاس جا چکے ہیں اور ہم پہ آپ نے مولوی اور ان کے پروردے چھوڑ دئے ہیں ۔ جب ہم نے اپنی جان و مال کا ذمہ خود ہی اٹھانا ہے اور آپ کتبے اکھاڑنے والے غنڈوں کو نتھ مارنے کے بھی اہل نہیں رہے تو ریاست اور حکومت کی رٹ کہاں ہے اور جب رٹ نہیں تو آپ بیٹھے کیوں ہیں۔ اور بے غیرتی اور ڈھٹائی کہتے کس کو ہیں۔؟؟
اب میں گالیاں بکنے اور جلوس نکالنے والے سر فروشوں سے کچھ عرض کر دوں۔


تم لوگوں میں تو خیر شعور کہاں لیکن آپ کے سافٹ امیج عامر خاکوانی اور انصار عباسی جان لیں کہ پاکستان اگر نیوکلئئر پاور نہ ہوتا تو آپ اس پہ قابض ہونے کا خواب دیکھ لیتے لیکن ایک ورلڈ کلاس پروفیشنل ملٹری فورس اکوڑہ خٹک اور لال مسجد کے ٹٹھ پونجیوں کے ہاتھ اس ملک کی باگ ڈور نہیں دے سکتی۔ اور یہ کبھی بھی ممکن نہیں کہ آپ پاکستان کو افغانستان بنا سکیں۔ آپ ناچ رہے ہیں یا ضیالحق کی کوتاہ نظر باقیات کے سر پر اور دوسرا کھونٹا آپ کا فضل الرحمن قبیل کے مذہب فروش سیاست دان ہیں جن کی کثرت ہر سیاسی پارٹی میں ہے اور سب کے سب بے بصیرت اور کوتاہ نظر ثم کرپٹ ہیں۔ ان کی بے بصیرتی نے پاکستان سے گڈ گورننس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ آپ نے اب ان کو کھانے کو آنا ہے۔ اور جب آپ نے پولیٹیکل اور سماجی سسٹم پر ننگے ہو کر حملہ کرنا ہے اور ملکی سالمیت کو داو پہ لگا کہ 72 قسموں کی شریعت اور 172 دھڑوں کا اسلام پاکستان میں نافذ کرنا شروع کیا اور گلی کوچوں کا نظم و ضبط مجروح اور مفلوج کرتے ہوئے اور بچا کھچا نظام عدل ونظام حکومت روندتے ہوئے آگے آنے لگے اور اس بے چھت کے ماحول اور غیر یقینی حالات میں احمدیوں پہ حملہ کرنے آئے تو وہ دن ہو گا جب آپ کو کھل کے روشن ہو جائے گا کہ احمدی جہاد کے کتنے منکر اور کیسی کمزور اور پسی ہوئی اقلیت ہیں۔ آپ لوگوں کی تو عقل ماری گئی ہے لیکن ہم حکومت کے پر امن شھری ہونا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور مذھب کے نام پر فتنہ و فساد کو موجب سلب ایمان خیال کرتے ہیں ۔ اور عالمگیر امامت کی ڈھال کے پیچھے رہنے میں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ اس لئے پر امن لیکن پر عزم ہیں۔


اپنی حکومت ریاست اور لاء انفورسمنٹ کے اداروں کی دیوار قائم رکھو کہ تم اسی کی وجہ سے محفوظ ہو۔ جس دن یہ نہ ہوئی تو تمہارے وجود کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ احمدیوں اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی جان چھوڑو اور اپنی ذات پر جی بھر کے جو کچھ بھی نافذ کرنا ہے کرتے رہو اور معاشرے میں علم تعلیم سوال جواب اور دلیل مکالمے کا راستہ کھلا رہنے دو اور پاکستان سب کے لئے کا اصول چلنے دو ورنہ یہ دوغلہ پن پوری کشتی میں سوراخ کے مترادف ہے۔ اس سے اب بھی باز رہو تو یہی زندگی کا رویہ ہے۔ مدینہ منورہ میں جا کے دھماکے کرنے والے بھی وہاں کچھ تو نافذ کرنے ہی گئے ہونگے۔ امت مسلمہ کو نفاذ نفاذ کھیلتے اور اس کٹے پھٹے نفاذ کو بھگتتے زمانے بیت گئے ہیں ۔اب نفاذ چھوڑ یں اور تسلیم کی خو ڈالیں۔


نعرہ انا ظلمنا سنت الابرار ہے۔
زہر منہ کی مت دکھاو تم نہیں ہو نسل مار۔
کھا رہا ہے دیں طمانچے قوم کے ہاتھوں سے آج
اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی مینار۔

Tahir Bhatti is a Frankfurt based veteran writer & presenter who has worked with Radio Pakistan for the last 15 years. He is also a social development consultant with UN and EU organizations. Currently he is writing and producing a play on Refugees in partnership with Red Cross. Email: [email protected]
@     Facebook