مکرم مبشر زیدی صاحب کی تحریر پڑھنے کو ملی تو سو لفظوں کی کہانیاں حافظے میں تازہ ہوئیں اور وہیں سے یہ مصرعہ عنوان ہوا۔

انگریزی ناول دنیا پہ حکمرانی کر رہا ہے اور اس کی ایک کیفیاتی توجیہہ ایک دفعہ برادرم فیض علی نے اسلام آباد میں بیان کی جو مجھے تا حال علمی اور نصابی توجیہات سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ اسے میرا نصابی عجز سمجھ لیجئے!

کہتے ہیں کہ ایک انگریز لکھاری اپنے گھر کے لان میں بیٹھا ہچکیوں سے رو رہا تھا تو ایک ہمسایہ آیا اور از راہ ہمدردی کندھا تھپتپایا اور پانی پلایا۔ سسکیاں رکیں تو پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ رندھی ہوئی آواز میں جواب ملا کہ پیٹر فوت ہو گیا ہے۔

پوچھا کہ پیٹر کون تھا؟ آپ کا کوئی بھائی؟
جواب۔ نہیں
کوئی کزن یا دور کا عزیز؟
نہیں۔
کوئی پرانا دوست؟
جی نہیں۔۔
تو پھر پیٹر کون تھا؟
موصوف نے کہا کہ میں آج کل جو ناول لکھ رہا ہوں پیٹر اس کا ایک کردار تھا اور آج رات ہی اس کی وفات ہوئی ہے۔ اور یہ کہہ کر پھر رو پڑے۔

جن لوگوں کو کسی شعبے میں عالمگیر پذیرائی ملتی ہے ان کا تعلق خاطر اپنے اپنے پیٹروں سے بہت گہرا اور دیر پا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اول تو تخلیقی اصناف میں اور علمی میدانوں میں پیٹر ہوتے ہی نہیں اور اگر کوئی لولے لنگڑے کہیں سے در آئیں تو ہمیں ان کے مرنے جینے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ البتہ کھیلوں میں پیٹر کو کچھ ہو جائے تو ٹی وی سیٹ توڑ ڈالنے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم موقع محل کی مناسبت سے قربانی اور وفا نہیں دکھاتے۔

ابر برسا بھی تو بس دریا کو چھلکاتا رہا۔۔۔

اس قبیل کی بے موقع مہربانیوں میں طاق اور مسلسل شاکی کہ ہم میں اہل کمال کیوں پیدا نہیں ہوتے۔

کل ہی برادرم حاشر صاحب نے جو بلیغ اور بھر پور طنز لکھا عورتوں کے حقوق کے قانون کے حوالے سے اس کو اگر الٹا کر مولویان اسلام کو دکھا دیا جائے تو بالکل آئینے کی طرح تصویر کھنچ جاتی ہے کہ ان حق تلفیوں اور ناانصافیوں کا رد عمل ہے یہ قانون۔ آپ نے پاوں کی جوتی کی جو ضرب المثل پالی ہوئی تھی یہ وہی پاوں کی جوتی ہے جو قانون کی صورت میں سر پہ آ پڑی ہے۔ میں اپنے سمیت ہزاروں گھروں کو جانتا ہوں جن کا گھریلو رکھ رکھاو حفظ مراتب کے طور پر باپ یا خاوند کو ہی آگے رکھتا ہے مگر یہ ان کا اختیاری (طوعی) معاشرتی رویہ ہے اور اس قانون کا ہونا نہ ہونا ان کے لئے برابر ہے۔ لیکن جن کو چٹیا سے گھسیٹ کر باہر پھینک دیا جاتا تھا اور معاشرہ بے حسی سے اس ظلم کو دیکھ کے چپ تھا ان مظلوموں کے لئے تو یہ قانون باپ جیسا تحفظ رکھتا ہے۔ اور ایک ایسا معاشرہ جس نے تعلقات استوار کر لینے کی سزا موت مقرر کر رکھی ہو اس کی غیرت کو نکیل ڈالنے کے لئے بہت اچھا اقدام ہے۔ رہا سوال مفتیان کرام اور علماء عظام کا۔ تو آپ پاکستان کی مختصر اور عالم اسلام کی مجموعی تاریخ میں ایک مثال لا دیجئے کہ انہوں نے کوئی فتوی، تحریک یا راست اقدام کبھی مظلوم غریب کمزور اور بے آسرا کے لئے بھی چلائی ہو اور بالخصوص پاکستان کی ایک بھی مذہبی تحریک جس کی تان سیاسی فوائد پہ نہ ٹوٹتی ہو ؟

تاہم حالیہ قانون ایک لحاظ سے دلچسپ ہے کہ یہ مظلوم عورتوں کے لئے ہے اور عورت تو صرف محکوم ہے۔ عورت کا تو کوئی فرقہ نہیں یہ تو ایک طبقہ ہے اس لئے علماء اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ جلوس کے شرکاء نہیں ملیں گے ان کو۔ سب کو جا کے عورت کے چولہے پہ ہی بیٹھنا ہے۔

دوسرا اشارہ ابتدا میں مبشر زیدی صاحب نے ملالہ کے مغربی ایجنٹ ہونے کی طرف کیا اور اتفاق سے آج چند دوستوں نے ٹی وی پروگرام کا لنک بھی بھیجا جو آج ہی نشر ہوا اور اینکر اور مہمان ضیالدین اور ملالہ کو غدار کہنے سے مطمئن نہیں تھے اور اب عدالت سے ان کی غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کروانے پہ مصر تھے۔ اس مقصد کے لئے ایک نیم دروں نیم بروں پارلیمنٹیرین محترمہ مسرت صاحبہ کو بھی ساتھ ملائے ہوئے تھے۔اور ان سب کی دانش سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ اور بغض تو کسی پھوڑے کی طرح پھوٹ بہتا تھا۔ ایسی طبیعتیں فیصلے دینے کی اہلیت کہاں رکھتی ہیں البتہ کیچڑ اچھالنے کا اسلوب خوب تھا۔

عبیداللہ علیم صاحب کا ایک شعر برمحل ہے۔ سن لیجئے پھر آگے چلتے ہیں۔

جو ابر ہے سو وہ اب سنگ وخشت لاتا ہے۔
فضاء یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی۔

وہ جو عدم برداشت اور خدا واسطے کی ناپسندیدگی مذہب کے نام پر شروع ہوئی اور انہی علمائے کرام کی پیروی میں شروع ہوئی اس نے آئین سے مہر تصدیق ثبت کروائی اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔

عورتیں اس کی لپیٹ میں آئیں اور عدالتیں شرعی ہوئیں یا کیا معلوم شریعتی ہو گئی ہوں پھر این جی اوز کی باری آئی پھر تحریک نفاذ شریعت محمدیہ کے سر براہ کا فتوی چھپا کہ این جی او کی عورت جہاں ملے پکڑ کر گھر لے جائیں اور نکاح کر لیں۔(بطور سزا)
اور پھر توہین کے قانون اور پھر مالا کنڈ کی عدالتیں اور حضرو کے مدرسے۔ لال مسجد کے مصلحین کا نفاذ اسلام اور پرویز مشرف کا سارا کیرئیر غداری کی نذر ہو گیا۔ آج بھی اگر ایک سرے سے شروع ہو جائیں تو ہمارے کرنے کے کاموں کی فہرست بہت طویل ہے ۔۔۔۔۔

کیرئیر کونسلنگ برائے طلباء

نصاب کی تطہیر اور تشکیل
زرعی شعبے کو ماہرین کے تحت لانا
رہن سہن کے ماحولیاتی منصوبے
جنگلات کا فروغ
ٹرانسپورٹ کے چھوٹے اور قابل عمل منصوبے
صحت اور تعلیم پر دس سالہ کوشش
کم آمدنی والے نوجوانوں کے لئے بیرون ملک تعلیم کے مواقع تلاش کرنا
پانی اور توانائی کی فراہمی
عورتوں، بوڑھوں بچوں کے تحفظ اور
رواداری کی ہمہ وقتی فضاء کا فروغ۔

یہ سب کچھ جہاں پہ ہو ان ملکوں سے کوئی ہجرت نہیں کرتا۔ اور جہاں مکالمے کی فضاء ہمہ وقتی حق ہو وہاں غداری اتنی عام نہیں ہوتی۔ ایک بات طے ہے کہ آپ کا گروہی اسلام ہے جو کافر اور مرتدین پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام کلمہ شہادت سے مسلمان بنا دیتا تھا اور کفر کا فیصلہ اللہ کے پاس رہنے دیتا تھا۔ آپ نے اس میں تحریف کر دی ہے اس لئے اب آپ کافر در کافر دنیا کو دے رہے ہیں۔

بالکل اسی طرح قائد کا پاکستان ہر طبقے اور طرز فکر اور شعبہ زندگی کا پاکستان تھا جس میں ہر کوئی کھیل کر میرٹ سے آگے بڑھ جاتا مگر اچھے کھلاڑی کے ٹخنے پر ہاکی کھینچ مارنا جرم تھا اور جو اچھا کام کر رہا ہو اس کا نام اور کام سراہا جاتا تھا۔ ٹانگوں پہ ہاکیاں مارنے والے دولتانے اور احرارئے ہیں جنہوں نے غدار کا ٹائٹل عام کیا اور اب ملالہ اسی کو بھگت رہی ہے۔

حسب معمول شعر مکمل کر دوں تا کہ مبشر زیدی صاحب کا تلازمہ خیال قرین حال دکھائی دے۔

سو سلسلے خیال کے سو رنگ خواب کے

کچھ سوچ کر کسی کی تمنا کرے کوئی۔

Tahir Bhatti is a Frankfurt based veteran writer & presenter who has worked with Radio Pakistan for the last 15 years. He is also a social development consultant with UN and EU organizations. Currently he is writing and producing a play on Refugees in partnership with Red Cross. Email: [email protected]
@     Facebook