غصہ کیا جو ضبط ۔۔۔ تو آنسو نکل گیا ۔۔


عنوان کے لئے مصرعہ حضرت چوہدری محمد علی مضطر مرحوم سے مستعار لیا ہے اور واقعہ یوں ہے کہ جن دنوں حامد میر صاحب روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے اور راقم الحروف اوصاف میں کالم لکھا کرتا تھا، ان دنوں عاجز نے ایک ادبی رپورٹ اور چوہدری صاحب کی شاعری کے حوالے سے ایک مضمون حامد میر صاحب کے سامنے رکھا کیونکہ مظہر برلاس جو میگزین ایڈیٹر تھے وہ اسے چھاپنے میں متامل تھے کہ چوہدری صاحب کا کلام بھی کمال ہے اور راوین بھی ہیں مگر معروف احمدی بھی ہیں اسلئے۔۔۔۔!

یاد رہے کہ ہر دو حصرات ان دنوں روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور منہ زور صحافی ہیں۔

حامد میر صاحب مضمون ملاحظہ فرما کر بولے،
“تسی احمدیاں نوں پرموٹ کرنا چاہندے او۔۔؟”
ان کا طنز اور نفرت سے بھر پور جملہ سن کے میں نے کہا کہ میر صاحب آپ بھی صحافی اور آپ کے والد صاحب وارث میر بھی ایک معروف صحافی تھے۔ کیا آپ برصغیر پاک و ہند کی اردو صحافت کی تاریخ میں ایک بھی ایسی دہائی بطور مثال پیش کر سکتے ہیں جب صحافت نے احمدیت کو پروموٹ کیا ہو۔۔۔۔؟
اور اگر نہیں اور کبھی بھی نہیں ۔۔۔
تو احمدیت کی پروموشن کے اسباب اور ہیں ۔۔۔۔!

آج بائیس سال بعد اس واقعے کی بازآفرینی کا باعث پاکستان کے ریاستی اداروں کی وہ کاروائی ہے جو انھوں نے تین روز قبل ربوہ میں جماعت احمدیہ کے مرکزی دفاتر میں کی۔ بیانیہ یہ ہے کہ ہم بندے گرفتار کرنے گئے تھے۔

چند سوال ہیں۔۔
کیا آپ نے جماعت احمدیہ کے افراد پہلی دفعہ گرفتار کئے ہیں۔؟
کیا الفضل اور جماعت کے جرائد و کتب پر پابندی پہلی دفعہ لگی ہے؟
کیا اس سے پہلے جماعت کے نامزد پرچوں میں مطلوب افراد اکثر اشتہاری ہو جاتے ہیں؟

کیا ان گرفتاریوں سے زیادہ ہائی پروفائل گرفتاری صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب موجودہ امام جماعت احمدیہ کی نہیں تھی۔۔؟
کیا اس گرفتاری پر جس میں ناظر اعلی و امیر مقامی صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ ربوہ کرنل ریٹائرڈ ایاز محمود خان شامل تھے اہل ربوہ یا اہل پاکستان احمدیوں نے وقار سے گری ہوئی مزاحمت یا احتجاج کیا؟

جس طاہر مہدی کی ضمانت لینا دوبھر ہو رہا ہے اور جو مجسم وقار جیل میں بیٹھا ہے وہ اسی روزنامہ الفضل کا مینیجر ہے اور اس کے پاس آپشنز موجود تھے۔

اور آخری سوال۔۔
کیا آج تک ایسا ہوا کہ حکومت وقت نے طلب کیا ہو اور جماعت احمدیہ نے تعاون نہ کیا ہو یا اپنے مرکزی دفاتر کو مفروروں کی پناہ گاہ بنایا ہو۔؟

عزت مآب حکومت پاکستان، اور عام قائین کرام۔۔۔۔ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے اور ریاست کے ادارے، عدلیہ، میڈیا اور ہر سطح کی ایجنسیاں اس معاملے میں پوری طرح جانتی ہیں۔

تو پھر آپ نے یہ حرکت کیوں کی؟
اگر تو صبر اور حد اور حوصلہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ جان لیں کے آپ احمدیوں کے صبر کی” ص ” کا بھی ادراک نہیں رکھتے کیونکہ ان پر سوا سو سال کی شبانہ روز محنت ہوئی ہے اور ان کے دھڑ پر سر سلامت ہے اور اعصابی نظام فعال ہے۔ سر کا پیغام پیروں کی انگلیوں تک جاتا ہے۔ آپ مفلوج دھڑ کے لوگ ان کے رسپانس کو جانچنے کے اہل ہی نہیں۔

دوسرا خیال یہ کی آپ اپنی صفوں میں دائیں بازو کے عناصر کو خوش کرنا اور خود کو احمدیوں کے لئے سافٹ کارنر نہ رکھنے والا ثابت کر رہے ہیں۔

تو آپ اور آپ کے لاڈلے ان چند گرفتاریوں سے راضی نہیں ہو سکتے۔
سارے شیعہ تمام آغا خانی ،ہزارے اور لبرل سوچ کے حامل شرفاء اور سچ کو سچ کہنے والے اہل علم وفن کا خون پی کر بھی یہ ڈائن راضی نہیں ہوگی۔ آپ کس بھول میں ہیں۔۔!

ویسے میرے خیال میں آپ کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور آپ اس انتہا پسندانہ ذہنیت کے دئے ہوئے زخم چاٹ رہے ہیں ۔۔۔

تو پھر۔۔۔۔آخری آپشن یہ بچتا ہے کہ آپ تذلیل کرنے آئے تھے۔

ریڈ کرنا اور رسالہ ضبط کرنا ایک بہانہ تھا۔ آپ وہ کام کرنے آئے تھے جو ضیاالحق کی ظالمانہ رجیم اور بھٹو کہ مکروہ آئین سازی کے ادوار میں نہیں ہوا۔
مرکزی دفاتر کا وقار اور رکھ رکھاو۔
عام احمدی کی عزت نفس، اور مرکز احمدیت کے اہم کارپردازوں کی اہانت۔؟

ملائیت کے سوشل میڈیا ہینڈلرز بھی کچھ ایسے ہی دعوے کر رہے ہیں۔
اور آپ لوگ تو ہیں بھی بڑے گھاگ ارباب حکومت اور ارباب اختیار!
اس لئے جب یہ ظلم اور تڈلیل جاری تھی تو تمام ٹی وی چینل وزیر اعظم کے ڈاکٹر عبد السلام کو ہیرو تسلیم کرنے کے فیصلے کی چوسنی لوریاں دے دے کر ہمارے منہ میں دے رہے تھے۔

آپ کا ایک مسئلہ ہے صاحب۔
کہ آپ ایک سیاسی اور سفارتی قسم کے خدا کو مانتے ہیں اور اپنی چالاکیوں پر اس سے ثمرات مانگتے ہیں۔ آپ کے میڈیا کا بھی کم و بیش ایسا ہی خدا ہے۔ اور آپ اسی کو حاضر ناظر جان کر یہ سب کچھ کرتے ہیں ۔

اگر تو ہمارا اور احمدیوں کا خدا بھی ویسا ہی ہوتا تو پھر تو برابر کی چوٹ تھی۔ مگر ایسا نہیں ہے۔
احمدیوں کا خدا وہ ہے جس کے کام تدریجی اور فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
تدریج یہ ہے کہ 1889 میں لدھیانہ سے چالیس آدمیوں کی پہلی بیعت سے شروع ہونے والی جماعت آج پوری دنیا میں آپ کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔

اٹل یہ ہے کہ تیس کی دہائی میں انگریز گورنر پنجاب کے حلق سے قادیان کا نظام جماعت اور خلیفہ قادیان نہیں اترتے تھے اور وہ ہر جمعے کو ڈائری لینے موٹر سائیکل سوار کو قادیان بھیجتا تھا۔

پھر قصر خلافت کی تلاشی کے آرڈر آتے ہیں کہ اسلحہ نکلے گا۔
پھر دولتانہ سپانسرڈ دشمنی مستقبل کے خلیفہ اور بانی جماعت احمدیہ کے بزرگ عمر کے بیٹے کو زیبائشی خنجر پہ گرفتار کر لیتی ہے۔بھٹو کی احسان فراموشی اور ضیاء کی آئین و قانون سازیاں تو ابھی کل کی تاریخ ہیں۔

ان ساری گیدڑ ٹپوشیوں سے جماعت احمدیہ کے جماعتی و ادارہ جاتی تشخص کا وقار تو ہر لمحہ ترقی پذیر ہے۔

خلیفہ ثانی اور ثالث کے زمانوں میں جہاں صرف پریس کانفرنس ہوتی تھی ان ملکوں کے وزراء اعظم اور کیبنٹ اور پارلیمان خوش آمدید کہنے میں سعادت سمجھتی ہیں۔ اور آپ ان ملکوں سے بھیک لیتے ہیں۔
یہ جملہ لکھتے ہوئے دکھ تو مجھے بھی ہوا ہے لیکن اس نشتر میں علاج بھی تھا۔

بانی جماعت احمدیہ کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے اور جماعت میں یہ معروف ہے کہ۔۔
انی مہین من اراد اہانتک۔۔۔۔
میں اس کی رسوائی کے سامان کروں گا جو تیری توہین کا ارادہ کرے گا۔

تو احمدیوں کو بانی جماعت نے جو تین سو سال کا روڈ میپ خدا کے وعدوں کا دیا ہوا ہے اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہے اور احمدیوں کے نزدیک خلافت احمدیہ کا وقار ہی اصل چیز ہے باقی اسی کے فیوض اور فروعات ہیں۔ اس لئے دفاتر تحریک جدید ربوہ پر بغرض تذلیل حملہ تو کامیاب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جہاں احمدیت کی عزت کی دستار ہے وہاں آپ کے ہاتھ خدا کی تقدیر کاٹ دیتی ہے لیکن اس سے آپ ریاستی غیر جانبداری کا پردہ چاک کر چکے ہیں۔ ملکی سطح پر جب ایک مفرور ڈاکو نے کچے کے علاقے میں پنجاب پولیس کو یرغمال بنائے رکھا اس وقت تو سی ٹی ڈی نے اتنا کوئیک رسپانڈ نہیں کیاتھا۔

اور اگر آپ اتنی معصوم نیت سے گئے تھے تو سی سی ٹی وی کیمروں کو کیوں توڑا ۔۔۔۔ثبوت مسخ کرنے کے لئے؟

موبائل کیوں چھینے؟
ریکارڈ ختم کرنے کے لئے؟

لائسنس یافتہ بندوقیں اور گولیاں کیوں چھینیں۔۔۔گارڈ کو کیوں تشدد کا نشانہ بنایا؟؟
تذلیل۔۔۔۔توہین۔۔ اور وہ بھی ایسے لوگوں کی جن کا کریمنل ریکارڈ بھی نہیں اور امن پسند شھریوں کی عام شھرت رکھتے ہیں۔

تو آپ صرف اور صرف ایک صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اگر دنیا کا خالق و مالک خدا یا تو واقعی نہ ہو اور یا پھر آپ کی بد نیتی اور چالاکی کا گھڑا ہوا ہو۔۔۔۔۔جو سچ اور جھوٹ میں نکھار کے لئے جیو ۔۔۔اے آر وائی اور حامد میر یا کاشف عباسی کے پروگرامز اور اخباروں کی ہڑبونگ کا محتاج ہو۔نعوذباللہ ۔۔۔۔۔
اور یا پھر اس کو اپنے فیصلے نافذ کرنے کے لئے فوجی یا سول انتظامیہ کو اعتماد میں لینا پڑتا ہو۔ آپ کی حرکتوں سے تو اسی طرح کے خدا کا پتہ ملتا ہے اور ہم اس کا اعلانیہ انکار کرتے ہیں۔

خدا وہ ہے جو عزتوں اور ذلتوں کا فیصلہ اپنی مشیت سے کرتا ہے اور ہم اس پہ ایمان رکھتے ہیں۔

آخر پہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک بر محل اور یقین انگیز شعر قارئین اور ارباب اختیار کی نذر کر کے اجازت۔۔۔۔
لب خاموش کی خاطر ہی وہ لب کھولتا ہے۔
جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے۔

Tahir Bhatti is a Frankfurt based veteran writer & presenter who has worked with Radio Pakistan for the last 15 years. He is also a social development consultant with UN and EU organizations. Currently he is writing and producing a play on Refugees in partnership with Red Cross. Email: [email protected]
@     Facebook