انٹرویو نور ڈاہری: صدر پاکستان اسرائیل الائنس


٭ آپ کا تعلق پاکستان میں کہاں سے ہے؟

میرا تعلق پاکستان کے صوبے سندھ سے ہے ، میری شناخت سندھی ہے اور میری زندگی کا بہت عرصہ حیدرآباد شہر میں گذرا ہے۔

٭ آپ کا مذہب کے کس مکتبہ فکرسے تعلق ہے۔

میں نے ہر مکتبہ فکر کی کتابوں کا بغور تحقیقی جائزہ لیا ہے اور ان کی جماعتوں سے وابستگی بھی رہی ہے۔ چاروں سنی اماموں (حنفی، مالکی۔ حنبلی، شافعی) ، شیعہ کے اماموں اور ان کے فقہ جعفریہ پر بھی تحقیق کی ہوئی ہے اس کے علاوہ احمدی کمیونٹی کی بھی بہت ساری کتابیں زیر نظر گزری ہیں۔ چاروں صحیح احادیث کی کتابیں بشمول اصول کافی، الرسالۃ اور شیعہ مکتبہ فکر کی نہج البلاغہ میری لائبریری کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بریلوی اور دیوبندی (تبلیغی جماعت) کے زیر اثر رہ کر کافی کام کیا ہے ۔ مگر اس وقت جس مکتبہ فکر پر کاربند ہوں اور زندگی کے آخری وقت پر کاربند رہوں گا وہ ہے سلفی مکتبہ فکر جس کو پاکستان میں اہل حدیث کیا جاتا ہے۔ الحمداللہ ۔ پچھلے دس سالوں میں اسلامی افکار اور اسی مکتبہ فکر کے زیر اثر تقریبا 150 مضامین لکھ چکا ہوں۔ الحمداللہ

انگلینڈ کے ابتدائی عرصے میں دین سے بلکل الگ ہوگیا تھا اور مارکس ازم کا ایکٹو ممبر رہ چکا ہوں، اس کی وجہ پاکستان کے سیاسی مذہبی جماعتوں سے بیزاری اور ان کے ایک دوسرے پر کافر کے فتوای لگاکر قتل عام جیسے قبیح اعمال ہیں جس کی وجہ سے آج بھی پاکستان کی ایک نسل اسلام سے دوری اختیار کرچکی ہے مگر میں اس میں اپنی دینی نا علمی کو قصوروار ٹھراؤں گا کہ جب میرے پاس علم نہیں تھا تو میں ان باتوں میں آجا تا تھا اور جب ان سے دھوکہ ملتا تو پورے دین کو قصوروار ٹھراتا تھا جب اللہ نے دین کی سمجھ بوجھ دی تو بھرپور طریقے سے واپس دین کی طرف آگیا اور دین پر قائم رہنے کی کوشش میں مصروف ہوں، گناہ اور غلطیاں انسان کا مقدر ہوتی ہیں اور رہیں گی۔ اللہ مجھ سمیت ہر کسی کی غلطیوں کو در گذر فرمائے۔ آمین

٭ آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟

میں نےانگلینڈ کی آکسفورڈ کالیج سے کرمنل سائیکالوجی میں ڈپلوما کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ میری لینڈ یونیورسٹی- امریکا اور آئی سی ٹی- اسرائیل سے انسداد دہشت گردی کی تعلیم حاصل کی ہے۔

٭ آپ کس پیشہ سے وابستہ ہیں؟

میں پچھلے 5 برسوں سے لندن پولیس سے وابستہ ہوں۔

٭ آپ کے اسرائیل کو سپورٹ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟

میں نے اسرائیل کو کافی ریسرچ اور ڈسکشن کے بعد سپورٹ کرنا شروع کیا، ہر طرح سے جاچ پڑتا ل کے بعد میں نے دیکھا کہ اسرائیل کے بارے میں جو کچھ دنیا نے اور ہماری سوسائٹی نے ہمیں بتایا ہے وہ بلکل غلط اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں نے جب اسرائیل کے کاؤنٹر ٹیررازم کے ادارے سے انسداد دہشتگردی کی تعلیم حاصل کی تو مجھے علم ہوا کہ دھشتگردی اور آزادی کے لڑائی میں کیا فرق ہے۔ جب آپ معصوم لوگوں کو اپنی سیاسی مقاصد کے لیے قتل کریں گے تو وہ دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے اور جب آپ صرف حکومتی اور فوجی تنصیبات پر حملے کرو گے تو وہ گوریلا جنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ میں اس کی آپ کو واضع مثال پیش کرتا ہوں ۔ آپ کے ملک پاکستان میں بلوچستان لبریشن آرمی کافی فعال ہے۔ جب تک وہ فوجی اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی تو وہ گوریلا جنگ کے زمرے میں آتے رہے مگر جب انہوں نے اپنے کاراوئیوں کا دائرہ معصوم عوام کے قتل عام کی طرف مرکوز کردیا تو وہ ہی تنظیم دہشتگردی کے زمرے میں آگئی۔ اسی وجہ سے جب آپ فلسطینی تنظیم حماس پر اسٹڈی کریں گے تو صورتحال بھی بے ایل اے جیسی ہی معلو م ہوگی۔ اب جبکہ یہ تنظیم کئی دہائیوں سے اسرائیلی عوام کو نشانہ بناتی آرہی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کو آزادی کی جنگ تو نہیں کہی جاسکتی۔ اسرائیل کو سپورٹ کرنا کوئی جرم اور گناہ نہیں ہے، اسرائیل اور پاکستان کے جنم ہونے میں صرف 9 ماہ کا فرق ہے اور دونوں ممالک کو برٹش ایمپائر نے تخلیق کیا اور دونوں ممالک مملکت برطانیہ کے زیر تسلط تھے اور ایک ملک (پاکستان) جائز اور دوسرا (اسرائیل) ناجائز کیسے ہوگيا۔

دنیا کہتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر اپنا قبضہ کیا ہے حالانکہ یہ بلکل غلط ہے، فلسطین اس وقت مملکت برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور اس کا پورا نام “برٹش مینڈیٹ فلسطین ” تھا۔ اور وہ برطانیہ نے ایک معاہدہ کے طور پر دونوں قوموں کو یکساں تقسیم کیا تھا، اب اگر فلسطینی اس تقسیم سے خوش نہیں تھے تو اس میں اسرائیل کا کیا قصور؟ ہندوستان کی تقسیم بھی تو ہندوؤں کو ناپسند تھی اور وہ بھی تو پاکستان کے مخالف تھے ، اسی وجہ سے تقسیم کے بعد خود ہندوؤں نے اسی جرم میں گاندھی کا قتل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان ناجائز نہیں تو اسرائيل بھی ناجائز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہی وجوہات تھیں کہ میں نے اسرائيل کے وجود کو تسلیم کیا۔

٭ کچھ پاکستانی امریکی اورپاکستانی کینیڈین پبلک فگر اور ادیب اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی صیہونیت کو سپورٹ نہیں کیا اور نہ انہوں نے زائنسٹ فیڈریشن کو جوائن کیا ہے، تو آپ نے صیہونی آرگنائیزیشن کو سپورٹ اور جوائن کرنا کیوں گوارا کیا؟

دیکھیے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں صیہونی تنظیم کا اعزازی ممبر ہوں جوکہ مجھے اپنی امن پسند کاوشوں کے عوض عطا کیا گیا ہے اور میں یوکے کی صیہونی سینٹرل کونسل کا اعزازی ممبر بھی ہوں، میں دنیا کا پہلا پاکستانی مسلمان ہوں جن کو یہ اعزازات عطا کیے گئے ہیں جس پر مجھے بے انتہا فخر ہے یا یوں کہ سکتے ہیں کہ یہ اعزازات میں نے اپنی بھرپور ادبی اور امن پسند صلاحیتوں کے بل بوتے پر حاصل کیے ہیں۔ رہی بات کہ دوسرے اسرائيل پسند ادیبوں کو یہ اعزازات کیوں نہیں نوازے گئے یا پھر انہوں نے صیہونی تنظیم میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کی تو یہ انہی پر اور ان کی کاوشوں پر منحصر ہے اس کا جواب وہ ہی بہتر دے سکتے ہیں۔

صیہونیت کو دنیا نے یہودیت سے الگ طور پر لیا ہے جوکہ بلکل غلط تصور ہے، اگر آپ صیہونیت پر تحقیق کریں گے تو آپ کو یہ یہودیت سے بلکل الگ نہیں مل گی، صیہونیت کی لا تعداد اقسام ہیں اور میں نے ان کی پولیٹیکل برانچ میں شمولیت اختیار کی ہے مگر صیہونیت کی ہر قسم ایک ہی جگہ ختم ہوتی ہے وہ ہے یہودیت اور اسرائيل۔ دراصل صیہونیت ایک نظریہ ہے جیسے سوشلزم ایک پولیٹیکل نظریہ ہے تو یہ بھی یہودیوں کا ایک بنیادی نظریہ ہے جس کو وہ لوگ اپنے آپ سے چاہیں بھی تو الگ نہیں کرسکتے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ میں ایک مسلمان بلکہ کٹر مذہبی مسلمان ہوں پھر میں نے یہودیوں کی نظریاتی تنظیم میں کیسی شمولیت اختیار کی یا یوں کہیں کہ میں نے ان کے نظریاتی فکر کو کیسے اور کیوں اپنایا تو اس کا آسان سا جواب ہے کہ اس کے لیے اس نظریہ کی تحقیق کرنی پڑے گی۔

صیہونیت کی بنیاد ایک مخصوص اور یکساں نظریہ پر ہےوہ یہ کہ “یہودیوں کا اسرائیل میں رہنا ان کا بنیادی حق ہے اور اسرائيل کا اس سرزمین کا قائم ہونا جائز اور قانونی حق ہے”، بس اتنی سی بات ہے اور آپ صیہونی بن گئے۔ دنیا کا کوئی بھی بندہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہے اگر وہ درج بالا نظریہ کو تسلیم کرتا ہے تو وہ صیہونی ہے اس کے لیے اس کو صیہونی تنظیم میں شمولیت اختیار کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسرائیل کے تقریبا ساری آبادی صیہونی تنظیم کی ممبر نہیں ہے مگر وہ صیہونی ہیں کیونکہ وہ اس نظریہ کو دل و جان سے تسلیم اور اس کا دفاع کرتے ہیں، اسی لحاظ سے دنیا کا تقریبا ہر یہودی اس نظریہ کا حامل ہے تو اس لحاظ سے وہ ایک صیہونی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سارے لوگ بھی جو پاکستان میں رہتے ہیں اور اس نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں صیہونی ہیں اور ان کو اس سرٹیفکیٹ کے لیے کسی بھی صیہونی تنظیم کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ساری بات نظریہ کو تسلیم کرنے کی ہے۔

٭ کیا آپ کے اسرائیل کی حکومت یا آرمی سے کسی قسم کے روابط ہیں؟

دیکھیے جی جب آپ صیہونی تنظیم کے ممبر ہیں اور ان کی سینٹر کمیٹی کے بھی رکن ہیں تو ان عہدیداروں سے آپ کے روابط از خود ہوجاتے ہیں اور میں اس بات کو تسلیم کروں گا کہ میرے اسرائیلی وزیر اعظم کی کابینہ کے ایک دو ممبران سے روابط ہیں اور اسرائیلی آرمی کے اعلی عہدیدار بشمول ان کی انٹیلی جنس کے ایک جنرل سے بھی ملاقات ہوچکی ہے اور یہ ساری باتیں راز نہیں ہیں۔ میں نے ان کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہوا ہے کیونکہ میرا مقصد ایک امن پسند معاشرے کو ترتیب دینا ہے جس کے لیے آپ کو ہر چيز اپنی عوام کے سامنے کھول کے رکھنی ہے کہ ان کا آپ پر اعتماد بڑھے۔

٭ سنا ہے آپ مولویوں (شدت پسندوں ) کی ہٹ لسٹ پر ہیں؟ تو آپ نے یہ خطرہ کیوں مول لیا؟

میں خود ایک مذہبی قسم کا بندہ ہوں اس کیے لیے مجھے مولویوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں جب بات آتی ہے سیاسی اسلام کی تو اس کے کارندے جو شدت پسند ہیں ان کی طرف سے مجھے دھمکی آموز پیغامات موصول ہوئے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ آپ جب بھی امن اور بھائی چارے کی بات کریں گے تو شدت پسندانہ سوچ کے حامل لوگ تو اس کی مخالفت ضرور کریں گے، جب ہمارا ملک پاکستان بنا تھا تو بھی تو اس کی مخالفت میں کئی علماؤں کے فتواجات تھے اور یہاں تک کہ قائد پاکستان کو بھی کافر کے فتوای صادر کیے جاتے رہے ہیں۔ جب آپ ایک مشن کو لے کر آگے بڑھتے ہیں تو آپ ہر چيز قربان کرکے یا قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ زندگی اور موت تو اللہ تعالی کی ذات بابرکت کے ہاتھ میں ہے اور وہ بستر پر بھی آسکتی ہے۔

٭ آپ نے پاکستان اسرائیل الائنس (آرگنائیزیشن) کیوں لانچ کی او راس کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان اسرائیل الائنس دنیا کی واحد تنظیم ہے جو پاکستان کے قیام کے بعد پہلی دفعہ وجود میں آئی ہے یوں سمجھ لیں کہ پاکستان اور اسرائيل کی کم و بیش 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی تنظیم کو سرزمین برطانیہ میں وجود میں لایاگیا ہے۔ سرزمین برطانیہ ہی وہ واحد مملکت ہے جس کی کوکھ سے دنیا میں دو ممالک ظہور پزیر ہوئے ایک پاکستان اور دوسرا اسرائيل ۔ اب وقت آگیا تھا کہ دونوں بھائی ممالک کو ایک ساتھ ملانے کے لیے سرزمین برطانیہ میں اس طرح کی تنظیم کو وجود میں لایا جائے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستانی عوام میں شعور کو اجاگر کرنا ہے اور 70 سالہ دوریوں کو دور کرنا ہے، اس تنظیم کے کوئی بھی سیاسی مقاصد نہیں بلکہ تعلیمی اور شعوری مقاصد ہیں۔ لوگوں کے دماغوں کے اندر ایک امن پسندانہ شعور اجاگر کرنا ہی اس تنظیم کی اولین ترجیح ہے۔

٭ اسرائیلی قوم پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟

ہر ملک میں اچھے او ر برے لوگ موجود ہوتے ہیں اور ہمیشہ کے طرح برے لوگ کم ہوتے ہیں اوروہ ملک کی نمائندگی قطعی نہیں کرتے اسی طرح اسرائیل میں بھی دوسرے ملکوں کی طرح ہر قسم کے لوگ موجود ہیں مگر اسرائیل کی اکثریت پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو ترجیح دیتی ہے اور پاکستانیوں سے نفرت نہیں کرتی مگر ان کے ذہنوں میں ہمیشہ ایک ہی سوال رہتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی پاکستان یا اس کی سلامیت کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچایا پھر پاکستانی ان سے نفرت کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ سیاسی بنیاد پر یا پھر مذہبی بنیاد پر؟ میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اسرائیل کی کثیر تعداد کو مثبت سوچ کی طرف راغب کیا ہے کہ وہ ایک پاکستانی کو مستقبل کا دوست سمجھے اور ان کی مثبت ذہن سازی کے لیے ہر عمل کو بروء کار لائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کئی دہائیوں کی نا مناسب نفرت کو تبدیل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، میں دنیا میں موجود نہ بھی ہوں مگر میں نے دونوں ممالک اور دونوں قوموں کے درمیان امن، اتفاق اور ہم آہنگی کا پودا لگا دیا ہے اب اس میں پانی دونوں قوموں نے مل کر ڈالنا ہے اور برکت تو ویسے بھی رب تعالی کی ذات ہی دے سکتی ہے۔ ان شاءاللہ

٭ پاکستانی حکومت اور سیاسی و فوجی قیادت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے کیا اقدام اٹھائے ہیں اور کیا وہ اقدامات ناکام ہوئے یا کامیاب؟

ہم پاکستانی قوم کے اندر ایک چيز کا بہت بڑا فقدان رہا ہے وہ یہ کہ ہم اپنی یا پھر اسلامی تاریخ کو بھلا بیٹھے ہیں اور جو قوم اپنی تاریخ کو پس بشت ڈال دیتی ہے اور تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی تو وہ قوم ایک دن قوم بھی نہیں رہتی اور اس طرح کی مثالیں اب تک دنیا میں موجود ہیں۔ پاکستان کی اصل تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کے ہر ادوار میں اسرائيل نے پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے جس کو پاکستان نے کسی حد تک ٹھکرایا دیا ہے۔ اسرائیل کے قائد اور سب سے پہلے وزیر اعظم بین گورین نے قائد اعظم کو پاکستان کے قیام کی مبارکباد بھیجی تھی ، بھرپور ساتھ دینے کا اعادہ کیا تھا اور دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا جس کا جواب قائد پاکستان نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ قائد پاکستان عربوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس نئے ظہور پزیر ملک کو عربوں کی مدد اور امددا کی اشد ضرورت تھی اسی وجہ سے انہوں نے اسرائیل کو نہ ہاں کی تھی اور نہ ہی نا کی تھی۔ اس کے بعد کئی ادوار آئے اوردونوں ممالک کے درمیاں کئی ظاہری او رپوشیدہ باتیں ہوئيں اور کچھ معاہدہ بھی زیر پذیر ہوئے جن کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ کئی ایسے ادوار آئے جب پاکستان پوری دنیا میں تنہا ہوگیا ور امریکہ پاکستان کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے نہ صرف مکر گيا بلکہ پاکستان کے پیسے بھی ضبط کردیے تو اس برے وقت میں صرف ایک ملک تھا جس نے پاکستانی کی مدد کی اور وہ تھا اسرائيل۔

اسرائيل نے نہ صرف پاکستان کی امریکی حکومت کے سامنے نمائندگی کی بلکہ کئی لڑاکا جہاز اور روکے ہوئے پیسے بھی دلوائے اور تو اور امریکہ سے نئی ملٹری ٹیکنالاجی بھی پاکستان کو دلوائي۔ نوازشریف اور بے نظیر کے اسرائیل کے ساتھ قریبی اور ڈائریکٹ تعلقات رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی سیاستدانوں ، مذہبی لیڈروں اور پاکستانی میڈیا کے کئے جانے پہچانے نمائندوں نے تل ابیب اور یروشلیم میں محفلیں سجائي ہیں اور تو اور کئی نامور سیاستدانوں نے امریکہ میں اسرائیلی بانڈز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی نے اسرائیلی موساد کو نا صرف قیمتی اور حساس معلومات دی ہے بلکہ کئی مشترکہ آپریشن بھی کئے ہیں۔ میرے خیال میں دونوں ممالک کے یکجا تعلقات کے لیے اتنا ہی پیش کرنا کافی ہے باقی باتیں کسی اور وقت میں ہونگي۔ جب اتنا کچھ پردے کے پیچھے ہورہا ہے تو پھر عوام کو بے وقوف اور ان کے اندر نفریتیں پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا سواء یہ کہ ان لوگوں کےسیاست کی دکان چلتی رہے۔

٭ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کے کیا فوائد ہیں؟

اس سوال سے یہ سوال نکلتا ہے کہ کیوں نہیں؟ جب پاکستان اپنے ازلی دشمن بھارت کو تسلیم اور اس کے ساتھ دوستی کی پینگیں اڑاسکتا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ مل کر اپنی ذاتی تجارت کرسکتا ہے اور ان سب باتوں پر پاکستانی عوام کو کوئی اعتڑاض نہیں ہے تو پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے حالانکہ بھارت دن رات ہمارے پاکستانیوں کا خون بہاتا ہے اور پاکستانی فوج اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کی سالمیت کی حفاظت کررہی ہے اور ہمارے سیاستدان ان کے ساتھ مل کر بزنس کررہے ہیں حالانکہ اسرائیل نے تو ہمارا ایک بھی پاکستانی نہیں مارا اور نہ وہ ہمارے لیے کوئی خطرہ ہے۔ میں بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کا مخالف نہیں ہوں، دوستی ہونی چاہیے اور دشمنی سے ہماری قوم کو سواء نفرت اور نقصان کے کچھ نہیں ملا مگر یہ دوستی برابری کی سطح پر ہونی چاہیے، دشمنی اور دوستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔

رہی بات اسرائیل کی تو درج بالا ایک سوال کے جواب میں یہ بات میں واضح کرچکا ہوں کہ انٹرنیشنل فورم پر اسرائيل نے پاکستان کی برے وقت میں مدد کی ہے جبکہ بھارت نے تو صرف دشمن ہونے کا ثبوت دیا ہے تو پھر اسرائیل سے دوستی کرنے میں کون سی قومی سلامتی کو نقصان ہورہا ہے۔ اگر پاکستان کو ڈر ہے کہ اس سے سعودی عرب ناراض ہوجائے گا تو سعودی عرب تو پہلے سے ہی اسرائیل سے دوستی کرچکا ہے اور اس کے ساتھ مل کر مشرق وسطی میں اعتماد کی فضا پیدا کررہا ہے اور تو اور اسرائیل نے متحدہ عرب امارات میں اپنا ایک کو نسل خانہ بھی کھول رکھا ہے۔ پھر پاکستان کو کس چيز نے آگے برھنے سے روکا ہے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے ہاتھ ملائے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ “اس سے پہلے کہ اسرائیل بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے ہمیں اس دوستی کو قبول کرنا چاہے” ، کیونکہ اسرائیل نے بھارت سے ہاتھ بڑھانے سے پہلے پاکستان سے ہاتھ بڑھایا تھا جو پاکستان نے جھٹلادیا۔ اسرائیل کو ساؤتھ ایشیا میں ایک مددگار کی ضرورت تھی اور وہ موقع پاکستان نے خود کھودیا۔ حالانکہ اس کے عوض اسرائیل پاکستان کا سارا قرضہ ادا کرنےکو تیار تھا، اسرائیل نے ہمیں خود کفیل ہونے کا موقع فراہم کیا جسے ہمارے سیاستدانوں نے اپنے مفادات میں قربان کردیا۔ اب بھی وقت ہے اسرائیل کے ساتھ اپنے قومی مفادات کو بروئے کار لاکر اور اپنی شرائط بل بوتے پر دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے اسی میں ہمارے ملک کی سالمیت ہے، دشمنوں نے پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور جب عرب ممالک اپنی سالمیت کے لیے اسرائيل کے ساتھ ہاتھ ملاسکتے ہیں تو پاکستان کو بھی اس میں پہل کرنی چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ چھپے ہوئے رشتے عوام کے سامنے آنے چاہیں۔

٭ پاکستانی قوم تو یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے تو پھر آپ کیوں مسلمانوں کے ازلی دشمن کا ساتھ دیتے ہیں؟

دیکھیے جی، سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا، پاکستانیوں کی نظر میں توامریکہ بھی مسلمانوں کا دشمن ہے مگر ان کو تو ہم نے اپنی گود میں بٹھارکھا ہے، امریکہ جانا یا ادھر رہنا ہمارے لیے فخر کی بات ہوتی ہے، اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھا ہمارے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے مگر جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو ہمیں اسلام کے پانچوں ارکان یاد آجاتے ہیں، یہ منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل نے اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ اسرائیل کے اندر 400 سے زائد مساجد ہیں اور 350 کے قریب مسلم عرب امام اسرائیل سے پگھار اور پینشن لیتے ہیں۔ اسرائیلی آرمی (آئي ڈي آیف) میں 350 سے زیاد عرب /مسلم اسرائیلی اپنی جانوں کا نذرانہ ہم وقت پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور ان کی تعداد دن بدن برھتی جارہی ہے، مسلمان عرب اسرائیلی جوق در جوق اسرائیلی آرمی میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے آگے آرہے ہیں۔ ایک ملین کے قریب مسلمان اسرائیل میں آباد ہیں ان کی جان، مال، عزت اور مساجد کی حفاظت کرنا اسرائیل کی اولین ذمہ داری اور وہ اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دے رہا ہے۔ اسرائیلی آرمی کا ایک برگیڈیئر جنرل عرب مسلمان ہے، اسرائیلی پولیس کا اسسٹنٹ کمشنر میں مسلمان عرب ہے، اسرائیل کی سپریم کورٹ کا ایک جج بھی اسرائیلی مسلمان ہے یہاں تک کہ اسرائيل کی پارلیمنٹ کی تیسری بڑی سیاسی جماعت مسلمانوں کی ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں میں اپنی قوم کے سامنے پیش کرسکتا ہوں اور اس سے ثابت کرسکتا ہوں کہ اسرائیل اسلام یا عالم اسلام کا دشمن نہیں ہے۔

٭ ایک سال کے اندر آپ کے لاتعداد مضامین اور انٹرویوزاسرائیلی اخبارات کی زینت بنے ہیں اس کا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ ہوا ہے؟

علم ایک طاقت کی حیثیت رکھتا ہے، میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں کسی بھی فیلڈ میں ایکسپرٹ کی حیثیت رکھتا ہوں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے اندر ہمیشہ سے ایک عادت رہی ہے اور وہ یہ کہ میں تحقیق کی جستجو میں لگا رہتا ہوں،چاہے وہ جستجو مذہبی ہو یا سیاسی، دینوی ہو یا دنیاوی میں نے ہمیشہ اس کو ایک اہم حیثیت دی ہے اور ہر تحقیق کی تہ تک جاتا ہوں چاہے اس کے لیے مجھے کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ علم کی کوئی قید نہیں ہوتی، اس کو جتنا حاصل کروگے اتنا آپ کےاندر اس کی تہ تک جانے کا تجسس بڑھتا جائے گا مگر شرط یہ کے آپ کوئی بھی علم حاصل کریں اس کے نتائج مثبت اور باہم امن اور محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ میں نے جو تحقیق کی اس کو دنیا کے سامنے پیش کیا چاہےمجھے اس کا خیمازہ ہی کیوں نے بھگتنا پڑا۔ علم سے بڑ ی کوئی طاقت نہیں ہوتی اور وہ آپ کا دفاع کرتی رہتی ہے۔ میری تحقیق کا پاکستانی قوم کو یہ فائدہ ہوا کہ پاکستان کا اسرائیل میں ایک مثبت خیال پیدا ہوا کہ سارے پاکستانی ایسے نہیں ہیں، ایک دیا ہی دنیا روشن کرنے کے کافی ہوتا ہے اور ایک قطر ہ بھی تالاب کو گندہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے تو میں نے وہ دیا بن کر پاکستانی قوم کی نمائندگی کی ہے، اس کا یہ اثر ہوا ہے کہ آج پاکستان کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگوں نےنہ صرف میرے مضامین سے استفاء حاصل کیا بلکہ اپنی ذہن کو مثبت پہلو کے طور پر اجاگر کیا ہے یہ ہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب تک پاکستان سے ان گنت پیغامات وصول کرچکا ہوں اور ابھی تک کررہا ہوں جس میں مکمل طور پر یک جہتی اور حمایت کا یقین دلایا گیا ہے۔ ایک بات ہمیشہ سے میری زبان پر ہمہ وقت رہی ہے کہ “ایک بندے کی ذہن سازی کرنے سے آپ ایک نسل کی ذہن سازی کررہے ہوتے ہیں” اور مجھے اس پر فخر ہے۔ الحمد اللہ

٭کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے مضامین میں فلسطینوں کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس کی کیا وجوہات ہیں؟

میرے مضامین میں آپ کوکہیں بھی فلسطینیوں پر تنقید نہیں ملے گا بلکہ ان کے اندر دھشتگرد عناصر اور دھشت گرد تنظیموں جیسا کہ حماس اور الاقصی برگیڈ وغیرہ کو میں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ تنظیمں فلسطینوں کی بہتری قطعی طور پر نہیں چاہتی اور ہمیشہ انہی تنظیموں کی دھشت گردانہ مظالم کی وجہ سے فلسطینی عوام پستی آرہی ہے۔ یہ ہی تنظیمیں فلسطین کی ایک الگ آزاد ریاست کی طور پر مخالف رہی ہیں حالانکہ اسرائیل نے پانچ مرتبہ فلسطینیوں کو آزاد ریاست بنانے کا موقع فراہم کیا بشمول مشرقی یروشلم اور مسجد اقصی کے مگر ہر مرتبہ ان تنظموں نے یہ پیشکش ٹھکراکر جنگ کو ترجیح دی۔ یہاں کہ ایسی ہی ایک پیشکش کے ٹھکرنے پر سعودی عرب کے انٹیلی جنس کے چیف شہزادہ ترکی بن فیصل نے یاسر عرفات مرحوم کو کہا تھا کہ ” آپ نے یہ پیشکش ٹھکرا کر فلسطینی عوام کا ایک عظیم جرم اور گناہ کیا ہے۔”۔ ہر دن غزہ اور غرب ادن سے ایک ملین کے قریب فلسطینی عرب اسرائیل میں کام کی غرض سے داخل ہوتے ہیں اور با حفاظت شام/رات کو اپنے گھر کو واپس پہنچ جاتے ہیں کیونکہ اسرائيل میں ان کو ایک بہتریں معاوضہ اور علاج اور ان جیسی کئی اور سہولیات میسر ہوتی ہیں جس میں وہ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل محفوظ کرتے ہیں اور یہ سہولیات ان کو اپنے علائقوں میں میسر نہیں ہے حالانکہ پوری دنیا سے اربوں ڈالر زفلسطینی تنظیموں کو ملتے ہیں مگر ان سے انہوں نے بجاء کہ اپنی عوام پر خرچ کریں، اپنے لیے عالیشان محلات، زمینیں، ہوٹلز، فیکٹریز اور بہت سارے ذاتی تجارتوں/بزنس میں لگا رکھے ہیں اور ان کی عوام یا تو غربت کی چکی میں پستی چلی آرہی ہے یا پھر اسرائیل جاکر اپنے لیے بہتر اور روشن مستقبل کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ ان دھشت گرد تنظیموں کی اپنی عوام پر کیے گئے مظالم پر میں اپنے مضامین میں تنقید کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ میں بذات خود فلسطین کی الگ ریاست کا حامی ہوں۔

٭ وہ کون سی اسرائیلی شخصیت ہے جس نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ؟

میں نے کبھی بھی اسرائیلی سیاست میں مداخلت نہیں کی کیونکہ میں سیاست کو قدرے نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، ہاں میں ان کے پڑھے لکھے لوگ اور ادیب و قلم کاروں کی بہت حد تک عزت کرتا ہوں کیونکہ میں خود ایک ادیب و لکھاری ہوں اس لیے مجھے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہے اور ویسے بھی ہر پڑھے لکھے اور علم والے انسان کی میں عزت کرتا ہوں۔ ان میں سب سے زیادہ میں ڈاکٹر بوئز گینور کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان کی ہر کتاب کو خرید کر پڑھتا ہوں کیونکہ وہ میری انسداد دھشتگردی کی تعلیم میں استاذ/پروفیسر رہ چکے ہیں اور میں نے اپنے استاد کی ہمیشہ عزت کی ہے۔ اگر آپ کو دھشت گردی کے بارے کسی قسم کی تازہ معلومات اور اس کا توڑ معلو م کرنا ہو تو ڈاکٹر بوئز گینور کی کتابوں کو پڑھیں مجھے یقین ہے کہ آپ کو دنیا میں اس موضوع پر کوئی بھی نیچا نہیں کرسکے گا۔ ان شاءاللہ

٭ آپ کے پاکستانی قوم اور اسرائیلی قوم کے بارے میں کیا تاثرات ہیں؟

دونوں قوموں میں ایک بات بہت یکساں ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی معاملے پر آپ سے بات کرسکتی ہیں، ہماری قوم صرف ایک نقطہ پر مار کھاگئی ہے کہ وہ ہر چمکتی چيز کو سونا سمجھ بیٹھی ہے۔ جہاں مسلمان کا نام آيا بغیر تحقیق کے ان کی بے جا حمایت شروع کردی اور جہاں غیر مسلم کا ذکر ہوا وہاں بغیر ثبوتوں کے ان کی مخالفت شروع کردی، اسی وطیرہ کی وجہ سے پاکستانی قوم جہالت کی پستی میں گرتی چلی جارہی ہے۔ وگرنہ، پاکستانی قوم ایک ذہین، با شعور اور دنیا کے کسی بھی کٹھن امتحان کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھی ہے، اگر یہ قوم اپنی عقل اور حکمت کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم اٹھائے تو مجھے اس قوم پر مکمل بھروسہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اور ملک اس کو زیر نہیں کرسکتا یہ اور بات ہے کہ اس قوم نے ہمیشہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑے مارے ہیں اور اپنی ہی قوم کا خون کیا ہے اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ملک کی جڑيں کھودی ہیں۔ آپ ایک ملین ڈالر میں بھی ایک یہودی کو اپنی قوم اور ریاست کے خلاف غداری کرنے کے لیے خرید نہیں سکتے مگر دنیا کی کوئی بھی قوم معمولی پیسوں سے آپ کے ملک سے سیکڑوں غدار خرید سکتی ہے، یہ ہی المیہ اس قوم کی بربادی کے لیے کافی ہے۔ اس قوم کو اپنی بقا کے لیے دوسرے قوموں سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

٭ پاکستانی اور اسرائیلی قوم کو کس طرح آپس میں روابط قائم کرنے چاہیں اور کیوں کرنے چاہیں؟

دنیا تیزی سے بدل گئی ہے اور ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرگئی ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے اس لیے میرے خیال میں پاکستانی اور اسرائیلی قوم کو سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں روابط پیدا کرنے چاہے اس سے دونوں اقوام کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع مل سکے گا۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے پاکستانی قوم اسرائیلی قوم سے سواء نفرت کے اور کچھ نہیں کرنا چاہتی، اس سے نہ صرف دوریاں گہری ہوتی جائيں گی بلکہ نفرتیں اور بھی بڑھتی جائيں گي۔ میرے خیال میں ڈسکشن اور ڈائیلاگ ایک ایسی چيز ہے جس سے ایک دوسرے کو قریب سے مشاہدہ کرنے اور سمجھنے کا موقع مل سکے گا اور اس سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ ہم اور ان میں کیا باتیں مشترکہ ہیں جن کے ذریعے ہم باہم امن کی کاوشوں کا آغاز کرسکیں۔

٭ آپ کا فیوچر پلان کیا ہے اور کس چيز پر آپ سب سے زیادہ فوقیت دیں گے؟

میر ا مستقبل کا پلان صرف اور صرف یہ ہے کہ کس طرح دونوں اقوام (پاکستانی اور اسرائیلیوں) کو آپس میں قریب لایا جاسکے۔ اس کے لیے میں سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور مستقبل میں الیکٹرانک میڈیا کو بھی بروئے کار لاؤں گا۔ فی الحال میں نے یوکے کے مختلف شہروں کا دورہ کرنا شروع کردیا ہے جہاں میں عوام سے مخاطب ہوسکو ں گا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تعلیمی اداروں میں تقاریر ہونگی اس کے بعد دوسرے ملکوں کا دورہ شروع کروں گا۔ ان شاءاللہ

میری زیادہ سے زیادہ فوقیت لکھنے پر ہوگي، میں اپنے امن پسندانہ پیغام کو اپنے قلم کی طاقت سے جہاں تک ہوسکے گا وہاں پہنچاؤں گا۔ اگلے سال میری توجہ انگریزی اور اردو میں کتاب لکھنے پر ہوگي۔ جس کو پڑھ کر لوگوں کے اندر شعور پیدا ہوگا اور ان کتابوں کے ذریعے لوگوں کو نفرت سے دور اور امن اور بھائی چارہ کے قریب لانے کی پوری کوشش کروں گا۔ ان شاءاللہ

٭ آپ کا پاکستانی قوم کے لیے کوئی پیغام؟

میں اس بار بھی وہ ہی بات دھراؤں گا جو میں ہر دفعہ کرتا آیا ہوں کہ علم حاصل کریں بغیر کسی نفرت اور تفرقہ کے۔ دنیا میں امن کے پیامبر بنیے نہ کہ تشدد کے پیروکار۔ جب تک آپ تاریخ کو صحیح نمونے سے نہیں پڑھیں گے تب تک آپ کہیں سے بھی کچھ نہیں سیکھیں گے۔ دنیا آپ کی دشمن نہیں بلکہ آپ اپنوں کے دشمن ہو۔ اپنے آپ کو تعلیمی لحاظ سے اتنا مظبوط کریں کہ دشمن بھی آپ سے سیکھنے کی کوشش کرے۔ اگر آپ اسرائیل اور یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں تو ان کو تعلیمی اور تجرباتی دنیا میں مات دیں نہ کہ نفرت اور تشدد کی راہ کے ذریعے کیونکہ آپ اس کو کبھی بھی مات نہیں دے سکو گے۔ انہوں نے ایک چيز اپنے ہزاروں سالوں کی نسل کشی سے سیکھی ہے کہ دنیا پر اپنی برتری قائم رکھنی ہے تو تعلیم اور تجربوں سے دنیا کو زیر کریں جو انہوں نے کر دکھایا ہے۔ آپ بھی اپنے آپ کو صحیح تعلیم اور صحیح دین کی دولت سے آرائستہ کریں تو دنیا آپ کے زیر ہوگی وگرنہ فی الحال دنیا کے حالات کا بغور جائزہ لیں تو ایسے لگ رہا ہے کہ ذلت مسلمانوں کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔ اللہ ہم سب کو علم و امن اور اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

You can read more about Pakistan-Israel Alliance on www.pakistanisraelalliance.org.uk