ملک ہی جیل بن گیا آخر


چند ماہ قبل توہین مذہب، توہین رسالت اور دراصل توہین ملائیت کے قوانین کے تناظر میں کچھ اشعار ہوئے جن میں ایک شعر یہ تھا کہ،

ملک ہی جیل بن گیا آخر۔
قید ہے جس میں آسیہ بی بی۔

جیلیں تو پاکستان کی راقم نے اندر سے بھی اندر تک دیکھ رکھی ہیں اور انسانیت کے قابل قدر جذبوں اور دل کھینچ امیدوں کی جیسی مٹی پلید ہوتی ہے وہاں پر اس پہ کجھ زیادہ لکھنے کی بھی ضرورت نہیں لیکن جب یہ کربناک جبر اور ظلم ایک ایسی ہستی کے نام پر کیا جا رہا ہو جس کا عام طور پر لقب “رحمت للعالمین ” ہو تو ذہن اور احساس ایسی ناقابل بیان گھٹن سے دوچار ہوتے ہیں کہ یہ کھلا زمین و آسمان بھی تنگ لگتا ہے اور آزادانہ فضاء میں بھی دم گھٹنے لگتا ہے۔

ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ گرفتاری سے لے کر آج تک آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام کی گستاخی نہیں کی۔ یا تو وہ عیسائیوں کی غازی علم دین بنی بیٹھی ہو نا کہ تم کر لو جو کرنا ہے۔ میرے ایمان کا تقاضا ہے کہ میں نے ٹھیک کیا جو بھی الزام ہے مجھے قبول ہے۔ لیکن وہ اور اس کے لواحقین اور عیسائی کمیونٹی تک کا یہ موقف نہیں ہے۔ اور ایک گورنر جو قطعی طور پر بے دین نہیں تھا مگر دیانت دار اور شجیع تھا اس مرحوم نے بھی یہی منصفانہ بات کہی، لیکن ملائیت نے جو فضاء بنا رکھی ہے اس میں توہین مذہب اور توہین رسالت تو مسئلہ ہی نہیں رہا بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ مولویت اور اس کے کسی اوتار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔

میرے دادا مرحوم کہتے تھے کہ اگر آپ کے خلاف کسی پر بدگوئی کا الزام ہو اور ملزم انکار کر دے کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تو اس پر گواہ بھگتانے کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ ہوا میں تحلیل شدہ بری بات کو گواہیوں سے مجسم کرنا آپ کا اپنا قصور ہے۔ اور امر واقع بھی یہی ہے کہ وہ بے چاری کہتی جا رہی ہے کہ میں نے گستاخی نہیں کی۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ پاکستان کی آئینی اور سماجی تاریخ میں بعض کم نظروں نے اپنے ہاتھوں سے ایسی گرہیں لگائی ہیں کہ اب وہ دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔ اور علمی و فکری دانش اور جرات کا حال یہ ہے کہ اگر جالب بھی ہوتے تو وہ فوجی آمریت اور سیاسی گھٹن پہ تو یہ مصرعہ ضرور پڑھ دیتے کسی بھی چوک میں کھڑے ہو کر کہ میں نہیں جانتا ۔میں نہیں مانتا۔۔۔۔لیکن موجودہ لال مسجد رجیم اور ممتاز قادری قبیل کی جبریت کے خلاف جالب بھی آواز نہ اٹھا سکتے!

اور یہ بات فوت شدہ جالب پہ خواہ مخواہ کا الزام نہیں ہے بلکہ اس کی دلیل یہ ہے کہ جن فوجی حکام اور آئینی سربراہان کے مقابل پر جالب دو مصرعے کہنے پہ جالب ٹھہرے وہ صاحبان سپاہ و حشم سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں اور اس کو “ٹچی ایشو” کہتے ہوئے اگلا سوال۔۔۔؟ پوچھ لیتے ہیں۔

معاملہ عدالت میں ہے۔۔۔۔زیر کاروائی یا زیر غور ہے کہ نہیں ، ہمیں یہ معلوم نہیں اور عدالت کے منصب پر حد ادب ہے۔ مگر خیال اور جذبوں پر کس نے بند باندھے ہیں۔ آسیہ کی بچیاں عدالت سے پوچھ کے تو نہیں روتی ہوں گی۔ اور جس رحمت للعالمین کی نعوذ باللہ توہین کا الزام ہے ان کی زندگی تو عفو اور درگذر کی ایسی قوس قزح ہے کہ قیامت تک کے افق اس کے رنگوں اور روشنیوں سے جگمگاتے رہیں گے۔۔۔۔مگر اس تاریک زمانے کے تاریک تر ذہن میں یہ روشنی کا استعارہ کون اتارے۔۔۔؟ہمارے ایک دوست مبارک صدیقی صاحب کی ایک نظم کے ہی جستہ جستہ مصرعے ہیں کہ۔۔۔

ستم گروں نے کہا مل کے یہ عدالت میں۔
کہ تم جو شھر میں خوشبو لگائے پھرتے ہو۔
سیاہ رات کے دستور سے بغاوت ہے۔
یہ تم چراغ جو ہر سو جلائے پھرتے ہو۔۔۔۔

طویل اور پر تاثیر نظم ہے اور موصوف کے کلام میں اپنی سطح پر اکیلی ہے۔ اختتام میں کہتے ہیں کہ۔
ہمیں یقین ہے اوپر بھی اک عدالت ہے۔ اسی کے فیصلے چلتے ہیں اور چلنے ہیں۔ بس اس یقین میں ہم بھی شریک ہیں اور چونکہ ظلم دھرتی پر اپنی دیرپا نحوست چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان سے حب الوطنی کا تعلق اور بانئ اسلام سے منسوب ہونے کی سعادت کا فیض ہے کہ دل میں یہ یقین ہے کہ ارباب اختیار کی بے اختیاری اور اہل دانش کی کم سوادی کے باوجود خدائے قدیر اپنی جبری تقدیر نافذ کرے گا اور آسیہ بی بی کی بے یارو مددگار بچیوں کی پکار سنے گا اور ان کو ان کی جیتی جاگتی ماں واپس ملائے گا۔ یقینا” وہ مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے۔


اس دوران شان تاثیر اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں اور افراد کی تشویش اور فکر کا سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے پتہ چلتا رہا۔ سب سے گذارش ہے کہ منظم کوشش کے ساتھ ساتھ آسیہ بی بی کے اہل خانہ کے لئے خبر گیری کا کوئی معقول موثر اور دیرپا انتظام کرنے پر سوچیں اور انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر ان کی ضروریات کا انتظام ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں شان تاثیر صاحب ہی کو یہ ذمہ داری سونپ کر باقی افراد یا ادارے ان کی مدد کریں۔

آسیہ بی بی کو ہم اور آپ رہا نہیں کروا سکتے مگر خدا قادر ہے لیکن اس کے بچوں کی خبر گیری کے لئے تو کوئی آئینی یا قانونی روک نہیں ہے اس لئے بسم اللہ کیجئے۔ اس رحمدلانہ کاروائی سے بھی اللہ کے رحم کو جوش دلایا جا سکتا ہے۔

Tahir Bhatti is a Frankfurt based veteran writer & presenter who has worked with Radio Pakistan for the last 15 years. He is also a social development consultant with UN and EU organizations. Currently he is writing and producing a play on Refugees in partnership with Red Cross. Email: [email protected]
@     Facebook