کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے


حمزہ علی عباسی نے وہ چھپکلی کھا لی جو پاکستانی معاشرے کے منہ میں کئی دھائیوں سے اٹکی ہوئی تھی۔ اب کوڑھ کی چھائیاں جہاں تہاں نمودار ہو رہی ہیں اور اس بار ایک بد قسمتی یہ بھی شامل حال ہے کہ حمزہ عباسی کے نانکوں دادکوں میں کوئی احمدی بھی نہیں ملا۔ اب ایک نجیب الطرفین سنی نے ایسا کٹا کھول دیا ہے اور کوئی لنک بھی نہیں بن پا رہا کہ یہ یہودیوں نے پیسے دے کر حمزہ کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے اوریا مقبول اپنی چار باتوں کے ساتھ سوشل میڈیا میں زرہ بکتر کے ساتھ اترے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔بس مکھی پہ مکھی مار کے چلتے بنے۔
“احمدیوں کو ریاست علماء اور آئین ملکر کافر قرار دے چکے ہیں۔ احمدی خود کو تسلیم نہیں کرتے اور حمزہ عباسی اس طے شدہ مسئلے کو نہ چھیڑے”


جماعت اسلامی۔۔۔۔۔۔” جان لڑا دیں گے اگر کسی نے اس ایشو پہ دوبارہ بات کی۔ جید علماء فتوے دے چکے ہیں۔”
ختم نبوت کے ایڈوکیٹ صاحب۔۔۔۔”اس مسئلے پر بات اٹھائی تو۔۔۔۔”
حمزہ عباسی کل کی پود ہے ۔۔ڈاکٹر مبشر حسن تو فیصلے کا حصہ تھے اور آن ریکارڈ کہ چکے کہ سیاسی فیصلہ تھا اور دباو میں آ کر کیا گیا تھا۔


اگر راقم آپ جیسی بد لگام بد نیتی اور کج فہمی پہ اترنے کی استطاعت رکھتا تو بے دریغ کہ سکتا تھا کہ یہ سارا تماشا مولوی حمداللہ کی بدکلامی پر بر پا شور کو ٹھنڈا کرنے کے لئے لگایا گیا ہے۔۔۔۔لیکن ایسا ہے نہیں۔


جب اسمبلی میں یہ ترمیم (اور یہی وہ چھپکلی ہے) ہونے جا رہی تھی تو مرزا طاہر احمد صاحب نے جو بعد میں جماعت احمدیہ کے چوتھے امام بنے، بھٹو صاحب سے پوچھا کہ یہ شق جو رکھی ہے کہ احمدی صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ بھٹو صاحب نے کوتاہ نظری سے بھرپور جوابی سوال کیا کہ کیا آپ نے صدر پاکستان بننا ہے؟


مرزا طاہر احد صاحب نے کہا کہ نہیں مجھے یا کسی احمدی کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر آپ کو نقصان ہوگا اس کا۔ یہ شق آپ نے پاکستان کے آئین میں وہ سوراخ رکھ دیا ہے جہاں سے مولوی کار مملکت میں گھسے گا اور پھر آپ پر آکٹوپس کی طرح مسلط ہوگا اور ریاست کے تشخص کو پامال کرے گا اور آپ اس کا منہ تکتے رہ جائیں گے۔


تو جناب اس مفہوم کا مکالمہ تو اسی وقت انتہائی اعلی سطح پہ ہو چکا اور آج تک جاری ہے۔
راقم الحروف سینکڑوں غیر احمدی شرفاء، تاریخ اور ادب کے اساتذہ، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، اہل صحافت، اینکرز، درجنوں حاضر سروس بیوروکریٹس حاضر سروس دفاعی افسران کے منہ سے یہ فقرہ بار ہا سن چکا ہے کہ۔” ایہہ کافر قرار دین والی ماری تے کھچ اے ۔۔۔پر ہن دسو کی کرئے؟”


تو جناب یہ حمزہ عباسی نے اس خاموش اکثریت کی ترجمانی کی ہے اور فطرت سے مجبور ہو کے کی ہے۔ اس میں سے ایجنڈے تلاش کرنے کی بجائے بات پہ غور کریں۔ ایک بات سامنے رکھیں کہ ایسی کسی کوشش کے ساتھ احمدیوں کا مقدر وابستہ نہیں ہے۔ اس کا اگر کوئی فائدہ ہے تو پاکستانی معاشرے اور عوام کو ہے۔ اس سے پاکستان کی گونگی شرافت کو زبان مل سکتی ہے۔ اس سے پاکستان کے اہل دانش فکری گھٹن اور احساس کے حبس سے نکل کے تازہ ہوا میں سانس لے سکیں گے۔ اس سے اسلام اور پاکستان کی غداری کا حربہ مولوی کے ہاتھ سے چھن کر پاش پاش ہو سکتا ہے۔ اس سے ہندو بوڑھے کو چنے بیچنے پر احترام رمضان کی آڑ میں زدو کوب نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سے ڈان، جنگ، ایکسپریس اور لاہور کراچی اسلام آباد میں چوری چھپے وسیع المشربی نہیں برتی جائے گی بلکہ کھل کے شیعہ سنی اور دہریہ مزاج گپ شپ کر سکیں گے۔


اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، ڈاکٹر مبارک علی ، بشارت قادر، وجاہت مسعود یا راجہ غالب احمد سے ملاقاتوں کے بعد معاشرے کو تاویلیں پیش نہیں کرنی ہوں گی۔


کسی دوست کو ربوہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا ہو یا وضع داری نبھانے کے لئے کسی شادی یا فوتگی پہ جانا ہو تو چوروں کی طرح چھپ کے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور آخری بات۔۔۔۔کوئی مولوی ٹن ہو کے جیو پہ علمیت نہیں جھاڑ سکے گا اور اگر کسی حمداللہ نے ایسی ننگ انسانیت زبان بولی تو سوشل میڈیا پہ نہیں وہیں اس کی درگت بنا دی جائے گی۔


اوریا مقبول، جماعت اسلامی اور مجلس فلاں اور شباب ڈھمکاں۔۔۔احمدیوں کے مقابل پر دلیل آپ کے باپ دادوں کے پاس بھی اگر ہوتی تو وہ اکثریت اور پارلیمنٹ کو نہ بھاگتے۔۔بلکہ بات کرتے۔ مگر یہی تو مسئلہ ہے کہ کیا بات کرتے؟


آج آپ مناظروں والی خود کشی تو کیا کریں گے لیکن اپنی پردہ دری کو ہی روک پائیں تو سمجھیں کہ سستے چھوٹ گئے۔


حکمران آپ کو ویسے بے حس ملے ہیں اور روزمرہ مظالم سے آپ غضب الہی کو للکارتے ہیں ۔ جو ظالمانہ حرکت ہوتی ہے اس کا کھرا ظالمان اور منصورے جا نکلتا ہے۔ اور اوریا مقبول جان سے چھن کے جو شریعت نافذ ہونے چلی ہے اس کے لئے اہل پاکستان تیار نہیں ہیں۔ اس وقت قادری نظر آرہے ہیں اور خدائے قادر کو نظر انداز کرنے کی حماقت ہے جو گل کھلائے چلی جاتی ہے۔ اب حمزہ عباسی کو مار ڈالو مگر مارا تو سلمان تاثیر کو بھی تھا۔۔۔۔! کیا وہ مر گیا؟ یارو۔۔آپ جس گھٹیا پن کا خواب دیکھ رہے ہو معاشرے اس سے بہت پہلے ہی نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ لوگ خدائے قادرو توانا کو نہیں جانتے اور نہ ہی نبئ رحمت کو۔


آپ کی بد نصیبی ہے کہ آپ صرف اقتدار پرست علماء اور ہوس پرست حامیان دین کو اسلام اور دین سمجھ کے مطمئن ہو۔ انا للہ و انا۔۔۔۔۔
حمزہ علی، ماروی سرمد، ہود بھائی سماجی بہبود اور معاشرتی مساوات کی بات کرتے ہیں اور ریاست کو غیر جانبدار دیکھنے کے متمنی ہیں اور اس لحاظ سے ان کو یہودیوں یا احمدیوں کے ایجنٹ سمجھنے کی بجائے۔۔۔۔مارٹن لوتھر کنگ کا بروز سمجھ لیں تو بات جلدی سمجھ میں آ سکتی ہے۔


اطہر نفیس کے مصرعے پہ ختم کرتا ہوں کہ
دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو۔

Tahir Bhatti is a Frankfurt based veteran writer & presenter who has worked with Radio Pakistan for the last 15 years. He is also a social development consultant with UN and EU organizations. Currently he is writing and producing a play on Refugees in partnership with Red Cross. Email: [email protected]
@     Facebook